Facebook

تلک الایام نداولھا بین الناس

 ہمارے ادارے عوام کی خدمت وتحفظ کے لیے ہیں؟

عدلیہ کے کردار سے یہ ثابت نہیں ہوتانہ ہی پولیس لوٹ مار سے بازاتی ہے افواج پاکستان کسی تھرڈ پاورکی خدمت پر کمربستہ ہیں۔

کیا عمران خان عوام واداروں کوباہم لڑانے پر تلے ہیں؟ 

اداروں کو عمران خان کے ساتھ چلنے سے کون سی چیز روکتی ہے جب عوام عمران کے ساتھ چلنے کو تیار ہے ؟

عمران خان کے خاتمے سے یہ قوم خاموش ہوجاٸے گی اور اداروں کی کارکردگی پر کوٸی سوال نہیں اٹھے گا؟

خدارا !کم ازکم باشعور مذہبی رہنما اس معاملہ میں اپنی شخصیت مجروح نہ کریں جو سمجھتے ہیں کہ اقتدار میں اکر شرع نافذ کردیں گےیا انا فانا فلسطین ومسجد اقصی کو ازاد کرالیں گے تو یہ ان کی بھول ہے۔قانون نافذ کرنے والے ادارے اس کے متحمل نہیں ہیں۔

یہ تو اندرونی لیول پر ازادی کی جنگ ہے جس میں عمران و عوام ،ادارے اور مفادپرست سیاستدان ایک پیج پر نہیں ہیں۔ 

مذہبی طبقات کو اندرونی لیول پر بھی جس غلامی میں وہ جکڑ چکے ہیں اس کا اندازہ ہونا ضروری ہے۔وگرنہ نفاذ شرع ایک خواب ہے جس کی تعبیر کے لیے خون سے ابیاری کرناہوگی۔

جب بیرونی غیرمسلم قوتوں سے ازادی مذہبی طبقے کی دیرینہ خواہش رہی ہے اور وہ خواہش خان صاحب پوری کرنے کا دعوی کرتے ہیں تو انہیں اس سے اتفاق کیوں نہیں ؟کیا یہ انانیت وبغض یا حسد نہیں ہے۔اگرچہ عمران صاحب ابھی بھی مصلحت کا شکار ہیں اور اسلام دشمن عناصر کے ساتھ دوست بن کر چلنے کا دعوی کرتے ہیں صرف یہ کہ غلامی نہیں کریں گے۔جبکہ تیسری دنیا میں دوستی کا فقط ایک ہی راستہ ہے اور وہ باالوسطہ یا بلاواسطہ غلامی کی صورت میں سامنے اتا ہے۔

اس لیے اگر عمران صاحب خودار بنتے ہیں اور غلامی سے نجات چاہتے ہیں اور عوام کو بھی ازادی دلاتے ہیں تو اس کے لیے ضروری ہے کہ اسے دوستی کا نام نہ دیں بلکہ اسلام کے قانون بین الممالک کی اتباع میں رہیں۔عمران خان صاحب خود کو اگر مکمل اسلام کا تابع کردیں تو مذہبی طبقات کا مکمل اعتماد حاصل کرنا ممکن ہوگا۔لیکن یہ ان کے لیے بہت مشکل ہے۔نیز بیرونی واندرونی پریشر مزید بڑھ سکتا ہے۔

اسیہ مسیح کے معاملہ میں انہوں نے بیرونی دباو قبول کیا اور عدلیہ کے ساتھ چلے تو جب اپنی باری اٸی اور عدلیہ بیرونی دباوسے نہ نکل سکی تو انہیں ناموس رسالت کے اسیران کے رنج والم کا اندازہ ہواضرور ہوگا۔تاہم انسان تجربات سے سیکھتا ہے۔اللہ تعالی ان کی غلطیوں سے درگزر فرماۓ۔امین 

مگر انہیں اپنی غلطیوں کا احساس ہونا ضروری ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ خان صاحب بلحاظ میرٹ دیگر تمام سیاستدانوں سے بہت بہتر ہیں۔اچھے ارادوں کی تکمیل میں ان کا ساتھ دینا چاہیے۔اور جو ان کی کمزوریاں ہیں ان کا احساس دلانا چاہیے اگر نہ سمجھیں گے تو اللہ تعالی حساب لینے کو کافی ہے۔

تلک الایام نداولھا بین الناس ہ

Post a Comment

0 Comments