Facebook

امرباالمعروف ونہی عن المنکر

 امر باالمعروف ونہی عن المنکر 


مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ امت مسلمہ میں راستباز ، انصاف پسند ،غیر جانبدار ،حق گو ،نڈر وبیباک علماء نا پید ہیں۔

مفاد پرست ،انا پرست اور تفرقہ باز علماء کی بہتات ہے۔کل یوم شہادت امیر المومنین حضرت علی رضی اللہ عنہ تھا ۔نام علی کا لے کر دکان اپنی اپنی چلا رہے ہیں نہ تو یہ توحید پر متفق ہیں نہ رسالت ،صحابہ واہل بیت علیہم السلام پر۔

دوسری طرف سیاستدان ہیں جو ایک دوسرے کی دشمنی میں اس حد تک گرچکے ہیں کہ من گھڑت الزام تراشی اور کسی کے ایمان تک کو مشکوک ومتزلزل بنادینے سے نہیں ہچکچاتے نیز اپنا ایمان واعتقاد تک بیچ ڈالتے ہیں۔

ختم نبوت صلی اللہ علیہ وسلم کے سلسلہ میں عمران خان صاحب پر بے بنیاد من گھڑت الزامات لگاتے ہیں۔ان کے اپنے بیانات وشہادتوں کو نظرانداز کردیتے ہیں اور کسی بھی عالم دین کو اس طرح کی حرکات کی مذمت کرنے کی توفیق نہیں ہورہی۔کیونکہ ہماری مذہبی سیاسی جماعتیں بھی حق پسند وحق پرست کم مصلحت پسند واناپرست زیادہ ہیں۔

درج ذیل دو شواہد کافی نہیں ہیں؟

١۔

https://www.facebook.com/story.php?story_fbid=1071344623235646&id=760472637656181&scmts=scwspsdd


٢۔

https://www.facebook.com/story.php?story_fbid=1073170289745410&id=100011573471529&scmts=scwspsdd


اب ایک اور حرکت جو مفتاح اسماعیل نے کی۔کہ قرانی ایت کی تلاوت وتبلیغ کی وجہ سے عمران صاحب پر طالبان ہونے کا استدلال کیا تو علماء اس پر لب کشاٸی سے کتراتے ہیں گویا انہوں نے ان سیاستدانوں کو کھلی چھٹی دے رکھی ہے کہ وہ جس طرح مرضی قرانی ایات کا مفہوم بیان کرتے اور مذموم مقاصد کے لیے استعمال کرتے رہیں۔

https://twitter.com/SHABAZGIL/status/1517912846495285248?s=20&t=u9DDB8nymft71dhnCoJd2Q



تاریخ پاکستان کا مطالعہ کرتے ہوٸے جب میں پڑھتا تھا کہ لوگ محمد علی جناح پر بھی شک کرتے تھے اور اج تک کتابوں میں یہ مباحث موجود ہیں کہ وہ سیکولر ریاست چاہتے تھے یا اسلامی ریاست؟ تو موجودہ دور میں عمران خان کے بارے میں لوگوں کے اس رویے کو دیکھ کر دکھ ہوتا ہے کہ لوگ کس قدر بدگمان ہیں اور حسد وبغض نے انہیں اندھا کردیا ہے۔حق وانصاف کو انہوں نے خاندان ،ذات ،برادری ،پارٹی ومسلک تک محدود کردیا ہے۔

اگرچہ مجھے خان صاحب کی ہر بات سے اتفاق نہیں ہے مگر بحیثیت مسلمان مجھے حسن ظن ہے کہ ان کی نیت وارادے نیک ہیں۔اور اس کی محنت ضرور ثمر بار ہوگی۔ان شاء اللہ

(جن باتوں سے اتفاق نہیں ان کی اصلاح ممکن ہے اور شاید خان صاحب اس سلسلہ میں ذمہ دار نہ ہوں بلکہ معاشرہ ودیگر افراد خودذمہ دار ہوں )

محمد علی جناح کی نیک نیتی وارادوں پر بھی مکمل شرح صدر ہے لیکن کچھ کمزوریاں اسی وقت سے ہمارے نظام میں رہ گیں تھیں اس لیے اج تک ہم مساٸل سے نمٹ رہے ہیں۔

قیام پاکستان کے وقت دو غلط فیصلے ہوٸے ۔

١۔دستور ریاست ایکٹ 1935مستعار لینے کی غلطی۔

٢۔اداروں کو اسلامی طرز پرمنظم کرنے کی بجاٸے استعماری طرزپر چلانے کی غلطی۔

جس کے دوخطرناک نتاٸج ہم بھگت رہے ہیں ۔

١۔دستور ریاست کبھی بھی استعماری اثرات سے پاک وازاد نہ رہا۔

٢۔ہمارے ادارے کبھی بھی ازادوخودمختیار نہ بن سکے۔


مذکورہ بالا دونوں اہم کام کرنے کے لیے ضروری ہے کہ مقننہ ودیگر اداروں سے ایسے غداروں کا خاتمہ کیا جاٸے جو راہ کی رکاوٹ ہیں۔اور اس سلسلہ میں کسی بھی قسم کے سمجھوتہ کی ضرورت نہیں ہے۔خان صاحب کی بھرپور تاٸید کرنا ضروری ہے کہ کسی بھی غدار وبددیانت کو این ار او نہ دیا جاٸے مقننہ ،عدلیہ ،انتظامیہ اور دیگر مقتدر اداروں سے ایسے افراد کو باہر پھینک دیا جاٸے۔لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ ہر باشعور مسلمان بطور مسلمان وپاکستانی سوچے نہ کہ کسی خاص مسلک ومذہب ،پارٹی وبرادری کا طرفدار بن کر۔علماء کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ حق کی حمایت کریں اور باطل کا رد کریں اور عوام کواچھے برے میں فرق کا شعور دیں۔جب بھی انہیں کوٸی ابہام ہو تو اس کی جواب طلبی ان کا حق ہے۔لیکن ملک وملت کے دفاع وارتقاء میں رکاوٹ کا کسی کو حق نہیں۔

Post a Comment

0 Comments