Facebook

امر باالمعروف ونہی عن المنکر


امر باالمعروف ونہی عن المنکر 
مردان عرب کا مطالعہ اس وقت کیا جب انٹرمیڈیث میں تھا۔
علامہ عبدالستار ہمدانی نے عرب فاتحین کے ایمان افروز واقعات کو جس دلکش انداز میں بیان کیا وہ یقینا لاٸق تحسین ہیں۔
اس میں ایک اہم بات جو مجھے اس وقت بیان کرنا ضروری ہے وہ سلطنت روم پر مسلمان کا فتح پاکر قیصرروم کو شکست دینے میں جو اخلاقی انحطاط کا کردار تھاوہ اج امت مسلمہ کا خاصہ بن چکا ہے۔
قیصر کی فوج جب بھی کسی نامور جرنیل کی قیادت میں مسلمانوں کے مقابلے کے لیے نکلی تو تین خاص باتیں اس لشکر میں موجود رہیں جو درحقیقت ان کی شکست کا سبب بنیں اور مٹھی بھر مجاہدین ان پر فتح پاجاتے۔
ان میں سے ایک چیز ایمانی قوت کا نہ ہونا اور افرادی قوت ووساٸل پر مکمل بھروسہ کرنا جبکہ باالمقابل مسلمانوں کا ہمیشہ اللہ کی ذات پر مکمل بھروسہ اور شوق شہادت وابدی فلاح کا جذبہ پایا جانا تھا۔
دوسری بات رومی لشکر کے افیسرز کا عیش پرست ، بے رحم اورظالم وجابر ہونا تھا ۔جب کسی علاقے سے گزرتے کھیت کھلیان اجاڑدیتے اور عورتوں کو پکڑ کر خواہشات کی تسکین کرتے جو اڑے اتا اس مظلوم کو نشان عبرت بنادیتے جہاں پڑاو کیا رقص وسرود کا اہتمام کرلیا اور غفلت میں وقت برباد کیا جبکہ باالمقابل مسلمان افواج کے کماندار رات سجدے میں گزارتے دن بھر تلوار چلاتے اور اپنے مسلمان  بھاٸیوں کی خبر گیری کرتے پچاس لوگوں کے ساتھ ہزاردشمنوں کو  جب حضرت خالد بن ولیدشکست دے کر لوٹتے اور اپنے صرف دس جوان بھی شہید کراتےتو دھاڑیں مارکر رویا کرتے کہ میں اپنے بھاٸیوں کی حفاظت نہ کرسکا۔
تیسری چیز اشرافیہ کا مراعات کا سمیٹنا اور عوام وعام افواج کو محروم کیے جانا تھا یہی وجہ تھی کہ کبھی اہل علاقہ نے قیصر کی افواج کا دل وجان سے ساتھ نہ دیا اور ان کے ظلم وجبر کے خاتمے کا انتظار کیا۔اپنی محرومیاں دور کرنے کے لیے اسلام اور مسلمانوں کی رعیت قبول کی اور ذمی بننے کو ترجیح دی۔ 
یہ صرف افواج کا حال ہے عدلیہ وپوپ اور قیصر کے اپنے مظالم کی داستان تو اس سے بھی طویل ہے۔
اج امت مسلمہ باالخصوص پاکستان کے اداروں کی روش وہی ہے۔افسوس قلم چلانے والے کا قلم توڑ دیا جاتا ہے زبان کھولنے والا باغی بن جاتا ہے صرف ایک ہی راہ باقی ہے اور وہ غریب ومظلوم کی بددعا ہے جس کا حساب بہت جلد ہونے کو ہے۔

تلک الایام نداولھا بین الناس ہ
فاعتبروا یا اولی الابصار ہ

یوں لگتا ہے کہ  اج اگر کوٸی اخلاقیات  ،عدل وانصاف  اور مساوات کا پیغام لے کر اٹھے اور عوام کو اس کی طرف بلاٸے تو عوام اس کے رنگ ومذہب کی پرواہ کیے بغیر اس کی طرف بڑھ جاٸے اور اس ظالمانہ نظام کو دفن کردے۔سچ کہا تھا حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کہ کفر کا نظام تو چل سکتا ہے مگر ظلم کا نظام نہیں چل سکتا۔
مقافات عمل ہے جو کروگے اسی کا رزلٹ سامنے ہوگا اس لیے اداروں کو ہوش کے ناخن لینا ہوں گے۔

Tags/Keywords:abdul basit attari,Abdul basit attari-mrso,muslim research scholar organization,mrso,Abdul Basit Attari,Professor Abdul Basit Attari,abdul basit,basit

Post a Comment

0 Comments