Facebook

امر باالمعروف ونہی عن المنکر

امرباالمعروف ونہی عن المنکر 


اگر تاریخ اسلامی کے تناظر میں دیکھا جاٸے تو ہم اپنی تاریخ دہراتے رہے ہیں :

35ہجری میں سب سے پہلی ریاستی بغاوت حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے خلاف ہوٸی ۔اپ نے باغیوں کے تمام اعتراضات رفع کیے مگر اللہ کو جومنظورتھا وہ ہوکر رہا اور ایک پراسرار خط نہ صرف اپ کی شہادت کا موجب ٹھہرا بلکہ مابعد ملت اسلامیہ کو مستقل انتشار میں مبتلاکردیا۔
اس پراسرار خط کا نتیجہ جمل وصفین اور پھر کربلاء تک پہنچ گیا۔اور اس کے اثرات ایسے گہرے تھے کہ مستقلا امت کو تقسیم کرکے رکھدیا۔
وہ حالات تاریخ تھے جو کچھ ہمارے سامنے ہے وہ تاریخ بن رہا ہے۔
2017 میں پراسرا ر طورپر حلف نامہ میں تبدیلی سے فیض اباد دھرنا ہوا جس نے ایک نٸے مذہبی وسیاسی گروہ کی بنیاد رکھی۔

مارچ 2022 میں ایک پراسرار خط نے پرامن پاکستان کوانتشارکی اگ میں جھونک دیا۔

22جولاٸی 2022میں بھی ایک خط ہی ہے جس نے پنجاب میں بحران پیداکردیا۔

35 ہجری کے خط کو مروان کی طرف منسوب کیا جاتا ہے اگر اس پربحث کی جاٸے کہ تحقیقات کیوں نہ ہوٸیں حضرت عثمان بن عفان کی کیا مجبوریاں تھیں تو صحابہ کی عدالت وتوہین صحابہ کے پیش نظر زبان بندی ہوجاتی ہے۔

اسی طرح مارچ 2022کے خط کو اگر زرداری ونوازشریف سے منسوب کیا جاٸے نیز دیگر ممبران جس میں بعض لوگ اداروں کے سربراہوں کو بھی اشارہ کنایہ کے طور پر شامل کرتے ہیں کو کیوں  زیرتحقیق  نہ لایاگیا؟

اب جولاٸی 2022والا معاملہ بھی تحقیق سے نہیں گزرے گا۔

وگرنہ ہر کردار کا کڑااحتساب لازم ہوجاتا ہے۔امت کی بدقسمتی کہ عمر رضی اللہ عنہ کے بعد ایسے رہبر سے محروم ہوگٸی جو کوڑا لے کر اپنے بیٹے پر بھی یکساں قانون نافذ کردیتے تھے۔

لیکن کب تک ہم احتساب سے دور بھاگیں گے؟دنیا کی زندگی باالاخر ختم ہوجانی ہے۔پراسرارخطوط کا سلسلہ روکنا ضروری ہے ہم میں سے ہرفرد پر ذمہ داری عاٸد ہوتی ہے کہ امرباالمعروف ونہی عن المنکر کا فرض پورا کریں۔
تعاونوا علی البر التقوی ولاتعاونوا علی الاثم والعدوان ہ
 
مالک کریم بے نیاز ہے عادوثمود ،فرعون ونمرود جیسوں کو باالاخر انجام تک پہنچادیا تو ظلم کا انجام اج نہیں تو کل ہوجانا ہے۔

ہمارے وہ احباب جو ہر صورت کسی خاص پارٹی یا جماعت کے ساتھ ہی حق وصداقت کو منسوب کرلیتے ہیں اور باقی سب کی مخالفت کا فریضہ سنبھال لیتے ہیں انہیں بھی قران وسنت کی روشنی میں اپنے معاملات کا جاٸزہ لینا ضروری ہے۔

الماوردی کی بیان کردہ ایک روایت پر اپنی تحریرکا اختتام کروں گا۔
الاحکام  السلطانیہ  میں ابو الحسن الماوردی نے حدیث بیان کی:
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے بعد تم پرحکام متعین ہوں گے نیک اپنی نیکی کے ساتھ اور بد اپنی بدی کے ساتھ مگر تم لوگ ان کے ہر اس حکم کی جو برحق ہو تعمیل کرو اگر وہ حکومت میں بھلاٸی کریں گے تو اس کا فاٸدہ تمہیں اور انہیں دونوں کو ہوگااور اگر براٸی کریں گے تو فاٸدہ تمہیں ہوگا اور اس کا وبال ان کے ذمہ ہوگا۔
سيَليكم بعدي وُلاةٌ فيَليكم البَرُّ ببِرِّه والفاجرُ بفُجورِه فاسمَعوا لهم وأطيعوا في كلِّ ما وافَق الحقَّ وصَلُّوا وراءَهم فإنْ أحسَنوا فلكم ولهم وإنْ أساؤُوا فلكم وعليهم
الراوي : أبو هريرة | المحدث : الطبراني | المصدر : المعجم الأوسط | الصفحة أو الرقم : 6/247 | خلاصة حكم المحدث : لم يرو هذا الحديث عن هشام بن عروة إلا عبد الله بن محمد بن عروة تفرد به إبراهيم بن المنذر ولم يسند هشام بن عروة عن أبي صالح حديثا غير هذا
میرا مالک کریم حساب لینے کو کافی ہے۔ اللہ تعالی اپنا اور اپنے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانبردار بناٸے۔
امین بجاہ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم ہ

عبدالباسط عطاری

Tags/Keywords:abdul basit attari,Abdul basit attari-mrso,muslim research scholar organization,mrso,Abdul Basit Attari,Professor Abdul Basit Attari,abdul basit,basit

Post a Comment

0 Comments