Article 03
"کرسمس اور اہل علم کی ذمہ داری"
فکری و عملی نوعیت کے بعض معاملات ایسے بھی ہوتے ہیں جن کے بارے میں اہل علم مختلف الرائے ہو جاتے ہیں۔کچھ ایسی ہی روش رواں سال کرسمس سے متعلق مسلمانوں نے اپنائی۔کرسمس کے بارے میں علماء دو حصوں میں منقسم ہیں۔جمہور اسے ناجائز قرار دیتے ہیں جبکہ کچھ جدت پسند سکالرز اس کے جواز کے قائل ہیں۔
جمہور کے پاس قران وسنت سے کرسمس منانے کے رد پردلائل موجود ہیں جبکہ دوسرا طبقہ محض ذاتی استدلال سے کرسمس منانے کا جواز فراہم کرتا ہے۔
ان سب میں اصولی طور پر عوام پر جمہور کی اقتداء لازم ہے اور درحقیقت عوام کی اکثریت بھی جمہور ہی کے ساتھ ہے۔اور یہی اسلامی مزاج ہے۔دوسرے طبقے کا اصل مسئلہ اب اپنے موقف کا دفاع کرنا بن گیا ہے کیونکہ شرعی دلائل سے اثبات فراہم کرنے میں ناکام رہے ہیں۔مگر افسوس اس بات کا ہے کہ بعض اہل علم مروت کے پیش نظر واضح اور دو ٹوک موقف دینے سے احتراز کرتے ہیں جس سے عوام و خواص میں اضطراب پیدا ہوتا ہے اور یہ غیر یقینی کیفیت عوام میں عملی بے راہروی کا سبب بنتی ہے۔
سوشل میڈیا،الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا اس طرح کی لایعنی بحث سے بھرا پڑا ہے۔ان تمام معاملات کے پس پشت جوسچائی میں نے محسوس کی ہے وہ یہ ہے:
"مغلوب ذہنیت واقوام ہمیشہ غالب قوم کی تابع ہوا کرتی ہیں ان کی اپنی کوئی تہذیب ،شعار ومعمولات غالب اقوام کی تہذیب کے اثرات سے مبرا نہیں ہوتے یہاں تک کہ غالب اقوام کی فرسودہ روایات و بیہودہ و گمراہ کن اطوار کے جواز بلکہ انہیں اپنانے کے لیے بھی تاویلات کی تلاش میں کوئی کمی نہیں چھوڑی جاتی"
میرے نزدیک اس طرح کے لایعنی مکالمے و مباحثے مغلوبیت کا کرشمہ ہیں کیونکہ صحیح اور غلط کا فیصلہ معاشرے میں طاقت کی بنیاد پر کیا جاتا ہے۔جب اپ مغلوب ہیں تو طاقتور اقوام کے افکارو اعمال کی اقتداء اپ کی مجبوری ہے۔
"افتاء میں اختلاف عصر حاضر کے علماء کا دستور بن گیا ہے"۔
اگر فتوی شریعت یا شرعی حکم کا نام ہے تو فتاویٰ میں اختلاف کو کیا کہیں گے؟
کیا شرعی احکام میں اختلاف ہے ؟
انسانی فہم کا اختلاف ،شرعی اختلاف کہلائے گا؟
عصر حاضر کے چند مذہبی امور جن میں فتاویٰ کا اختلاف موجود ہے۔
۱)محفل میلاد النبی کے انعقاد پراختلاف
۲)جنازہ کے بعد دعا پر اختلاف
۳)قبر پر اذان میں اختلاف
۴)مزارات کی حاضری پر اختلاف
۵)عید الفطر منانے پر اختلاف
۶)محرم کے جلوس میں شرکت پر اختلاف
۷)یوم اصحابہ و اہلبیت کے منانے پر اختلاف
مذکورہ بالا مثالیں مذہبی امور سے متعلق ہیں۔معاشی،معاشرتی و سیاسی معاملات پر بھی مختلف فتاویٰ جات موجود ہیں۔
اسلامک بینکنگ،پردہ کے معاملات،خاندانی تنظیم،ملک کے انتظامی امور میں شرکت و عدم شرکت وغیرہ اس کی مثالیں ہیں۔
غیر مسلموں سے تعلقات وغیرہ کے معاملات باالخصوص کرسمس کے مسئلہ پر جو عجیب و غریب استدلال سامنے ارہے ہیں سوشل میڈیا بھرا پڑا ہے۔
علماء کی اتفاقی رائے کن امور میں ملے گی؟اگر یہ معاملہ چلتا رہا تو فتوے کی حیثیت شخصی رائے کی رہ جائے گی۔اس لیے ذمہ دار اہل علم ان امور کا سنجیدگی سے جائزہ لیں۔جن امور میں اختلاف رائے شرعا روا ہے اس پر نقد نہیں مگر ہر امر میں اختلاف الرائے مسائل پیدا کر رہا ہے ۔نیز اختلاف الرائے اگر اہل علم کے مابین رہے اور بحث و تمحیث کے بعد متفقہ نقطہ نظر۔عوام کے سامنے لایا جائے تو یہ زیادہ بہتر ہے اور اگر اختلاف اراء عوام کے سامنے رکھ کر غلط اور صحیح کا فیصلہ عوامی مقبولیت سے کرانا مقصود ہو تو معاشرے میں افراتفری و انتشار کے سوا کچھ حاصل نہ ہو گا۔
کرسمس سے متعلق دوطرفہ چند استدلال سامنے رکھ کر تجزیہ پیش کرنا چاہوں گا اور اہل علم سے رہنمائی کا طالب ہوں تاکہ ہم سب مقصود اصلی اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول میں کامیاب ہو سکیں۔اللہ تعالیٰ ہر ایک کو حسن نیت پر جزادے اور غلطیوں سے درگزر فرمائے۔امین
بعض اوقات کرسمس کو میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم سے تشبیہ دی جاتی ہے۔اور کہا جاتا ہے:
رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کی خوشی پر کسی کو اعتراض نہیں وہاں بھی طریقے پر اعتراضات ہیں
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی پیدائش کی مناسبت سے سوموار کا روزہ رکھا ہے جو احادیث میں واضح مرقوم ہے۔اسی طرح یہاں بھی انداز اپنا اپنا ہو سکتا ہے۔اپ اپنے طریقے سے منا لیں"۔
گزارش یہ ہے کہ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم مناناکوئی فرض یا واجب نہیں ، نہ منانے میں کوئی حرج نہیں۔جبکہ کرسمس کو تو باقاعدہ مذہبی شعار اور عقیدہ کا حصہ بنا دیا گیا ہے۔
اگر انبیاء علیہم السلام کا یوم میلاد منانا اتنا ہی ضروری ہے تو اس میں حضرت مسیح علیہ السلام کی کیا تخصیص ہے تمام انبیاء علیہم السلام کی ولادت پر سلام۔تو سارا سال ہی میلاد منائیں۔ کم وبیش ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء تشریف لائے تو ساری زندگی میں ایک ایک دن منتخب کر لیں یا کم ازکم جن چھبیس نبیوں کا قران میں نام لے کر ذکر ایا ہے ان کو ہی لے لیں ہر مہینے دو دو میلاد تو کم از کم بنتے ہیں۔حقیقتا افراط وتفریط سے بچنا چاہیے۔
انبیاء کی تعلیمات پر عمل اصل ہے اور ہمیں یہ تعلیمات نبی اخرالزماں صلی اللہ علیہ وسلم سے ہی ملیں گی اس لیےہمیں صرف ان کا میلاد منانے پر اکتفا کرنا چاہیے جو سب سے اخر میں تشریف لائے اور جن کا میلاد تمام انبیاء نے منایا اور یہ امت میں تواتر سے اسلاف سے ثابت ہے۔باقی ہر نئے امر پر نام نہاد تحقیق سے اختلاف اراء بڑھے گا جو وقت کے ضیاء کے سوا ثمر بار نہیں۔
ایک اور اہم سوال اس ضمن میں پو چھا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ ہمیں کرسچن عقیدہ سے کوئی غرض نہیں۔ ان کا عقیدہ ان کے ساتھ ہم درست عقیدہ رکھ کر بھی منا سکتے ہیں۔زیر بحث مسئلہ مسلم کمیونٹی کے لیے "منانے" کے جواز اور عدم جواز کا ہے.اخر یہ کہنے میں کیا حرج ہے کہ "حضرت عیسی علیہ السلام کا جنم دن مبارک ہو ؟"
یہ لا یعنی بحث ہے۔مسئلہ یوم ولادت منانے کے جواز اور عدم جواز کا نہیں ہے۔یوم ولادت منانے کے جواز میں کسی کا کوئی اختلاف کسی بھی نبی علیہ السلام سے متعلق نہیں ہے۔مذہبی شعار اور عقیدے کے ضمن میں متفقہ فتوی ملنا ضروری ہے۔اپ مجھ سے کہیں ،میں اپ سے کہوں کوئی حرج نہیں۔مگر کیا ایک کرسچن جو حضرت مسیح علیہ السلام کے بارے شرکیہ عقیدہ رکھتا ہے اس سے یہ کہنا روا ہے؟یا وہ اپنے شرکیہ عقیدہ کی بناء پر ہم سے کہے اور ہم جواب میں تصدیق کریں یہ روا ہے؟سورہ الکافرون کا مکمل مضمون اس ضمن میں بطورشرعی دلیل پیش کیا جاسکتا ہے کہ یہ فعل ایک مسلمان اور غیر مسلم کے درمیان حد بندی قائم کرتا ہے۔اگر اپ ان کے عقیدہ سے برات ظاہر کرتے ہیں تو ان کے افعال سے جو درحقیقت ان کے عقائد سے تشکیل پاتے ہیں برات کا اظہار ضروری ہے۔
کچھ جدت پسند سکالرز کا کہنا ہے کہ اب تو کرسمس کوئی خاص مذہبی تہوار رہا نہیں بلکہ عالمی تہوار بن چکا ہے اور ساری دنیا یہ تہوار مناتی ہے۔اس لیے اسے مذہبی تناظر سے نہ دیکھا جائے؟
گزارش یہ ہے کہ صحیح و غلط کا معیار ساری دنیا کے ساتھ چلنا نہیں ہے۔ساری دنیا کنویں میں چھلانگ لگادے ہم بھی لگادیں گے۔یہ کیا جواز اور عدم جواز کی دلیل ہوئی؟
اس ضمن میں شرعی دلیل کا ہونا ضروری ہے۔اس پر اہل علم کا اتفاق رائے ہونا ضروری ہے۔
ہمارے ایک دوست نے کچھ اس طرح سے استفسار کیا۔
"مجھے نہیں معلوم کہ ہمارے علماء کرسمس ڈے کے بارے میں اتنے حساس کیوں ہیں۔اس کو عبادت اور عقائد سے ماورا رکھتے ہوۓ محض سماجی سطح پر گنجائش دینے میں کیا حرج ہے"
عرض یہ ہے کہ کرسمس منانے کی مکمل گنجائش کرسچن کے لیے موجود ہے مسئلہ امت مسلمہ کے منانے یا ان تقریبات میں شرکت کرنے کا ہے۔
مذہبی شعار اور عقیدہ کے ضمن میں امت مسلمہ کے لیے کرسمس منانے کی کوئی گنجائش نہیں۔ہاں ایک صورت ممکن ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام سے متعلق صحیح اسلامی نقطہ نظر بیان کیا جائے اور باطل نظریات کا رد کیا جائے۔
اور اس دن اگر ان کے غلط نظریات کا رد قران سے کرنا شروع کردیں تو کرسچن اگلے سال سے کرسمس منانا بند کردیں اور ہم جاری رکھیں۔لیکن اسے پھر انتہاپسندی وغیرہ جیسے الزامات سے نوازا جائے گا۔کیونکہ میں نے پہلے عرض کیا تہذیب وتمدن ،افکارو اعمال کے غلط یا درست ہونے کا فیصلہ طاقت کرتی ہے اور تین ہی اپشن بچ جاتے ہیں یا تو اس کی مخالفت سے اپنے لیے ازمائش پیداکرنایا خاموشی اختیار کرلینا یا ہاں میں ہاں ملا دینا۔اور داد وصول کرنا۔
0 Comments