Facebook

"مخلو ط معاشرہ میں اسلامی تہذیب کا حقیقی تصور"The real concept of Islamic civilization in a mixed society

 Article :04



The real concept of Islamic civilisation in a mixed society

"مخلو ط معاشرہ میں اسلامی تہذیب کا حقیقی تصور"


عصر حاضر فکری وعملی تغیرات کا مجموعہ ہے۔جس کی بنیادی وجہ مخلوط معاشرہ کا قیام ہے۔مسلم معاشرہ میں اگرچہ بنیادی طورپر یہ سوال عام فہم ہونے کے ساتھ ساتھ مکمل جواب رکھتا ہے کہ مخلوط معاشرتی ماحول میں اسلامی تہذیب کے خدوخال کیا ہونگے اور ان پر عمل کی نوعیت کیسے تشکیل پائے گی؟
اس سوال کا جواب ان افراد کے لیے بہت مشکل ہے جو تہذیب نو کی ظاہری چمک دمک اور نام نہاد روشن خیالی کے سحر میں گرفتار ہوں۔ورنہ اسلام عالمگیر و افاقی دین ہونے کی وجہ سے ہر دور کی ہمہ قسمی معاشرت کے ساتھ اپنی انفرادیت برقرار رکھ کر چلنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
"اصول فطرت ہے کہ تہذیبی برتری عملی زندگی کا رخ متعین کرتی ہے اور راز فطرت ہے کہ تہذیبی تصادم بھی جاری وساری ہے اور خالق کریم دیگر تہذیبوں کو مسلم تہذیبوں پر حاوی ہونے کا موقع بھی فراہم کرتا رہتاہے(تلک الایام نداولھا بین الناس)"۔
 اس لیے اصولی طورپر چند باتوں کو سمجھ کر "مخلوط معاشرت میں اسلامی تہذیب کے حقیقی تصور"کا ابتدائیہ یہاں بیان کیا جائے گا۔جبکہ اس کی تفصیل وقت وضرورت کے پیش نظر تمام ممکنہ ابہام واوہام کے ازالہ کے لیے موقع ومحل کی مناسبت سے بیان ہوتی رہے گی۔جو توفیق خالق کریم نے مجھے عطاکی میں اپنا کردار ادا کروں گا اور جو دیگر خوش قسمت مسلمانوں کے حصہ میں ہے وہ اپنی ذمہ داری خوب نبھائیں گے۔ان شاء الله 
مذکورہ بالا گفتگو سے چند اہم اصول سامنے ائے:
۱)کسی تہذیب کی ظاہری برتری اس تہذیب کی حقانیت ثابت نہیں کرتی۔
۲)تہذیبوں میں تصادم ایک فطری عمل ہے۔
۳)اسلامی تہذیب کی برتری کا تعلق اس کے ممتاز ومنفرد افکارواعمال سے ہے۔
۴)اسلامی تہذیب کے خدوخال اور ان پر عمل کی نوعیت طے شدہ حقیقت ہے جو زمان و مکان کے امکانی اثرات سے بالاتر ایک جامع وجود رکھتی ہے۔
علم المعاشرت کے ماہرین نے تہذیب وتمدن کی جو تعریف کی ہے۔ان میں ایک مشترک قدر "انسانی رہن سہن"قرار دیا جاسکتا ہے۔
ہمارے ہاں رواں صدی میں ایک تصور یہ پیداہوا کہ رہن سہن یعنی تہذیب کا تعلق عقیدہ سے نہیں ہے جبکہ دوسرا خیال یہ ہے کہ عقیدہ میں صرف شرک اورغیراخلاقی باتون  سے بچ کر دیگر عقائد سے اسلامی  تہذیب متصادم نہیں ہوتی۔
مذکورہ بالا دونوں بیانات غلط ہیں۔پہلا تو فی نفسہ غلط ہے کہ رہن سہن فکر یا عقیدے و سوچ کے بغیر تشکیل نہیں پاسکتا۔اور دوسرا اس لیے غلط ہے کہ تہذیب پر شرکیہ عقیدہ اثرانداز ہوسکتا ہے تو دیگر تمام افکارو عقائد کیسے نظر انداز کیے جاسکتے ہیں۔نیزاخلاقیات کے تعین کامعیارکیاہوگا؟
گویا کہ تہذیب وتمدن کو عقائد سے جداگانہ حیثیت دینا ایک سعی لا حاصل ہے۔
اب رہی یہ بات کہ اگر اسلامی تہذیب کے عقائد و افکار کو ہر جگہ لے کر چلیں تو مخلوط عالمگیر معاشرت کا حصہ نہیں بن سکتے؟اس لیے عصرحاضر کے تناظر میں کچھ لچک پیداکرنا انتہائی ضروری عمل ہے اور اس پر بھی اجتہاد ہونا چاہئے ۔اور یہ اجتہاد مفتیان کرام کی بجائے جامعات کے فارغ التحصیل علم المعاشرت کے ماہرین کی ذمہ داری قرار دیا جائے۔(یہ موضوع فی الحال زیربحث نہیں ہے)۔
"لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوہ حسنہ"(احزاب:۔۔)کے پیغام پر غور کیا جائے اور سیرت طیبہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مطالعہ کیا جائے تو یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے کہ تاقیامت جس طرز سے بھی مخلوط معاشرت کا حصہ بننا پڑے اسلامی تہذیب اپنا واضح بیانیہ اور لائحہ عمل رکھتی ہے۔مکہ و مدینہ،شام و عراق ،ایران و اندلس ،افریقہ و ایشیاء غرض عہد رسالت ﷺ  میں مخلوط معاشرت سے لے کر سلطنت عثمانیہ کے وجود تک اسلامی تہذیب کے خدوخال اور عملی اطلاق کا جائزہ لیں تو "مخلوط معاشرت مین اسلامی تہذیب کے حقیقی تصور"کا مسئلہ نو ابادیاتی قومی ریاستوں کے قیام سے پیداشدہ اشکالات مین سے ایک سطحی مسئلہ نظر ائے گا۔چونکہ "اسلامی تہذیب مخلوط معاشرت میں ہی پروان چڑھی اور تمام اقوام کو فکری وعملی وحدت کے دامن میں لاکر بام عروج حاصل کیا"۔

Post a Comment

0 Comments