مشاجرات صحابہ و راہ اعتدال فلاح ملت کا بنیادی فلسفہ
مشاجرات صحابہ ایک ایسا موضوع ہے جس پر بحث ومباحثہ کا نتیجہ نفرت وانتشار کے سوا کچھ نہیں۔
تاہم تفہیم دین(باالخصوص فقہ)کے لیے اختلاف صحابہ الله کی رحمت ہے۔
امت کا اجماعی واتفاقی فیصلہ ان دونوں معاملات میں یہی ہے کہ مشاجرات پر خاموشی اور فقہی اختلاف پر مدلل ومصدقہ فتوی پر عمل کیا جائے اور دوسروں کی اراء ودلائل کا احترام کرتے ہوئے انہیں عملی اختیار کی ازادی دی جائے۔
لیکن نااہل ،شر پسند اور فتنہ پرور لوگوں کی بھی کمی نہیں جن کے پاس کرنے کو کچھ نہ ہو وہ انہی موضوعات کو لے کر تحقیق کا شوق پورا کرتے ،وقت ضائع کرتے اور باالاخر ذلت اٹھاکر راہ فرار اختیار کرتے ہیں۔
حالیہ واقعہ سے قبل چند احباب کے ساتھ عشائیہ پہ ملاقات ہوئی تو مشاجرات کے موضوع کو بدقسمتی سے لے لیا گیااور پی ایچ ڈی سکالر ہونے کی وجہ سے مجھے بولنے پر مجبور کیاگیا۔حالانکہ احباب واقف ہیں کہ میں ذاتی تجربے کی بنیاد پر امت کے اختلافی معاملات باالخصوص مشاجرات پر بحث باالکل پسند نہیں کرتا۔لیکن کیا کہیے دانشورورں کے اصراربڑھتے گئے اور نہ چاہتے ہوئے لب کشا ہونا پڑا اس سے نتیجہ خاک نکلنا تھا قلم اٹھانا پڑا کہ بعض اوقات اس سے سمجھانا اسان ہوتا ہے۔
نہ سمجھنے والوں سے الله کی پناہ اور جو سمجھ جائیں الله ان کا بھلا کرے۔امین
جنگ جمل کے تمام فریقین میں سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے تقابل کا اختتام اس حدیث پر کیا جاتا ہے کہ "علی حق کے ساتھ اور حق علی کے ساتھ ہو گا"۔اور اس حدیث کو اسی واقعہ کے لیے نص قطعی سمجھا جاتاہے۔
بات بڑھ جائے گی۔مختصرا یہ مقام تقابل نہیں ہے اور نہ ہی یہ حدیث اس واقعہ کے لیے ان معنوں میں نص قطعی ہے کہ معاذاللہ حضرت عائشہ باطل پر تھیں کیونکہ سربراہ سے قصاص کا مطالبہ کرنے کا انہیں حق تھا۔
دوسرا مسئلہ اس جنگ میں شہید ہونیوالوں کا ہے۔بخاری شریف میں یہ حدیث مذکور ہے کہ "دو مسلمان لڑ پڑیں تو دونوں جہنمی ہیں"اگرچہ حدیث میں باقاعدہ اسی جنگ کا ذکر کر کے ایک صحابی اس حدیث سے استدلال کر کے دوسرے کو شرکت سے منع کرتا ہے۔
صحابی کا استدلال درست ہے مگر یہ حدیث بھی ان تمام شہداء صحابہ کے لیے نص قطعی نہیں جو شہید ہویے بلکہ یہاں بطور ریفرنس النساء کی ایت نمبر ۹۵ ہو جو صحابہ کے جنتی ہونے پر نص قطعی ہے۔
وَ كُلًّا وَّعَدَ اللّٰهُ الْحُسْنٰىؕ-وَ فَضَّلَ اللّٰهُ الْمُجٰهِدِیْنَ عَلَى الْقٰعِدِیْنَ اَجْرًا عَظِیْمًاۙ(۹۵)
یہی معاملہ جنگ صفین کا بھی ہے۔اس سلسلہ میں بھی مختصرا تین قرانی حوالے پیش کر کے بات ختم کرنا چاہوں گا۔ایک سورہ الحجرات ،ایت نمبر9:
وَ اِنْ طَآىٕفَتٰنِ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اقْتَتَلُوْا فَاَصْلِحُوْا بَیْنَهُمَاۚ-فَاِنْۢ بَغَتْ اِحْدٰىهُمَا عَلَى الْاُخْرٰى فَقَاتِلُوا الَّتِیْ تَبْغِیْ حَتّٰى تَفِیْٓءَ اِلٰۤى اَمْرِ اللّٰهِۚ-فَاِنْ فَآءَتْ فَاَصْلِحُوْا بَیْنَهُمَا بِالْعَدْلِ وَ اَقْسِطُوْاؕ-اِنَّ اللّٰهَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْنَ(۹)
اور دوسرا سورہ الفتح کی ایت نمبر۲۹:
مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰهِؕ-وَ الَّذِیْنَ مَعَهٗۤ اَشِدَّآءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَآءُ بَیْنَهُمْ تَرٰىهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا یَّبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنَ اللّٰهِ وَ رِضْوَانًا٘-سِیْمَاهُمْ فِیْ وُجُوْهِهِمْ مِّنْ اَثَرِ السُّجُوْدِؕ-ذٰلِكَ مَثَلُهُمْ فِی التَّوْرٰىةِ ﳝ- وَ مَثَلُهُمْ فِی الْاِنْجِیْلِ ﱠ كَزَرْعٍ اَخْرَ جَ شَطْــٴَـهٗ فَاٰزَرَهٗ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوٰى عَلٰى سُوْقِهٖ یُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِیَغِیْظَ بِهِمُ الْكُفَّارَؕ-وَعَدَ اللّٰهُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ مِنْهُمْ مَّغْفِرَةً وَّ اَجْرًا عَظِیْمًا۠(۲۹)
اور تیسرا سورہ البینہ،ایت نمبر۸:
رَضِیَ اللّٰهُ عَنْهُمْ وَ رَضُوْا عَنْهُؕ
اللہ تعالیٰ ہم سب کو صحابہ و اہل بیت کی حقیقی محبت وعقیدت عطا فرمائے اور ان کی اطاعت و اتباع اور ادب نصیب کرے۔امین بجاہ نبی الکریم صلی الله علیہ وسلم ہ
نوٹ:میرا مشورہ ہے تمام مسلمانوں کے لیے کہ اس سلسلہ میں افراط وتفریط سے بچیں اور ایات و احادیث کی شرح کے لیے قرانی حکم " فَسْــٴَـلُوْۤا اَهْلَ الذِّكْرِ اِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ(۷) (21:7) "پر عمل کریں۔اور جو لوگ اصحاب واہل بیت کی اطاعت و ادب کی بجایے تقابل کی راہ اپنائیں ان سے دور رہیں اسی سے ملک وملت کی بھلائی ،دنیوی واخروی فلاح نصیب ہوگی۔
0 Comments