”اختلاف امت اور نظریہ توازن“
امت مسلمہ کی تاریخ سےیہ بات اظہر من الشمس ہے کہ فکری وعملی زندگی میں ” اختلاف امت “ ایک واضح اور ناقابل تردید حقیقت ہے اسے سمجھنے سے پہلے دو اصولی باتیں ذہن نشین کرلیں۔
١) اسلام دین فطرت ہے اور توازن واعتدال اس کی صفت ہے۔
٢)اس لیے یہاں انسان کو بطور انسان ہی دیکھیں ۔انسان فرشتہ نہیں نہ ہی معصوم ہے ماسوا انبیاء کرام علیہم السلام۔
اسے سمجھنے کا اصولی طریقہ یہ ہے کہ قران وحدیث کے ان مقامات کا مطالعہ کریں جہاں انسانی افکارواعمال کی بنیاد پر انسانوں کی گروہ بندی کی گٸی ہے۔اور پھر اس گروبندی کی حیثیت کا تعین کریں کہ کس حد تک اسلام میں یہ روا ہے اور کب اسلامی تعلیمات کے منافی ہوجاتی ہے؟اور جب یہ منافی ہے تو اسلام اسے کس نظر سے دیکھتا ہے اور کیا لاٸحہ عمل اختیار کرنے کا درس دیتا ہے؟
مختصرا اسے درج ذیل تین حوالوں سے سمجھا جاسکتا ہے۔
١)پہلے قران کے بیان کردہ ان مقامات کی نشاندہی کی جاٸے۔ جہاں نظریاتی اختلافات کی وجہ سے قران نےانسانوں کی گروہ بندی کی ۔
٢)مابعد ان مقامات کی نشاندہی ہو، جہاں عملی اختلافات کی وجہ سے قران نے انسانوں کی گروہ بندی کی۔
٣)پھر ان مقامات کی نشاندہی کی جاٸے ،جہاں ایک ہی نظریہ کے حامل دو قسم کےگروہوں (مومینین وکفار)کے باہم اختلافات کی وجہ سے قران نے گروہ بندی کی مذمت کی اور احکام ربانی کی اطاعت واتباع کا درس دیا۔
یہ انتہاٸی دلچسپ اور اہم ترین موضوع ہے۔اسلام چونکہ میانہ روی واعتدال وتوازن کا علمبردار ہے اس لیے جب کوٸی شرانگیز وتصادم پذیر فکروعمل پیدا ہوتا نظراٸے گا اسلام اس پرسخت ردعمل کااظہار کرے گا اور حقیقی مسلمان کے رویے میں بھی یہ عنصر بدرجہ اتم موجود ہوگا۔اس لیے قیام امن کے لیے ضروری ہے کہ اختلاف فکروعمل کو کبھی بھی شرپسندی وفتنہ انگیزی کی طرف نہ بڑھنے دیا جاٸے۔بلکہ جب بھی ایسی صورت پیدا ہو کڑااحتساب کیا جاٸے۔
0 Comments