عدل کی اہمیت وتقاضے
مجھے یوں لگتا ہے جو شخص خود انصاف کا علمبردار تھا وہ ناانصافی کی بھینٹ چڑھ گیا۔حضرت لقمان نے اپنے بیٹے کو نصیحت کی تھی کہ بیٹا اگر کوٸی فرد اپ کے پاس اکر کسی دوسرے فرد کی شکایت کرے کہ اس نے اس کی انکھ پھوڑ دی ہے اور واقعتا اس کی انکھ پھٹی ہوٸی بھی ہو تو اس ایک فریق کی بات سن کر کبھی بھی فیصلہ نہ دینا بعید نیں کہ یہ فرد اس کی دونوں انکھیں نکال کر ایا ہو۔اس سے واضح ہوتا ہے کہ فریقین کا موقف سنے بغیر کیا جانیوالا یک طرفہ فیصلہ درست نہیں ہوتا۔
اور جب فریق مخالف کا دعوی یہ ہو کہ فریق اول دھوکے وغداری کا مرتکب ہوا ہے تو اسے کیسے نظرانداز کیا جاسکتا ہے؟
اگر فریق ثانی کے الزامات جھوٹے ثابت ہوں تو وہ قیادت کی اہلیت کھو بیٹھے گا اور اعتماد اٹھ جاٸے گا۔لیکن منصف کا فرض ہے کہ شہادتیں طلب کرے اور اگر اس کے لیے فریق ثانی وقت طلب کرے تو اسے وقت بھی دے اور انصاف کے تمام تقاضےپورے کر کر فیصلہ صادر کیا جاٸے۔
کیا موجودہ صوتحال میں ذکر کردہ مراسلہ سنگین اثرات چھوڑ کر تاریخ میں دفن ہوجاٸے گا؟
اقیموالوزن باالقسط ولا تخسر والمیزان ہ
اعدلوا ھواقرب للتقوی ہ
یاد رکھیں اللہ کے احکامات پس پشت ڈالنے کی سزا بڑی المناک ہوتی ہے۔
اگرچہ فریق ثانی کا دعوی غلط ہو اور الزامات جھوٹے ہی کیوں نہ ہوں لیکن اسے اپنے حق میں شہادت دینے کا مکمل اختیار اسلام نے دیا ہے مگر افسوس اسلامی جمہوریہ پاکستان کی عدالت عظمی نے اسے پس پشت ڈال دیا ہے۔
حدیث نبوی ہے !
من رای منکم منکرا فلیغیرہ بیدہ وان لم یستطیع فبلسانہ وان لم یستطیع فبقلبہ ہ
یااللہ ہمیں اپنی ذمہ داری پوری کرنے کی توفیق عطافرما۔امین
1 Comments
Indeed a bitter reality
ReplyDelete